دل مُضطر ** طویل نظم ** اظہر ناظؔر
اے مِرے دِلِ مُضطر دیکھ اب سنبھل بھی جا بدلی بدلی سی ہے دُنیا تُو اب بدل بھی جا کب کوئی تِرا واں اُس گلی سے نکِل بھی آ چاند چھُونے کی ضِد کو چھوڑ اب بہل بھی جا اے مِرے دِلِ مُضطر دیکھ اب سنبھل بھی جا میں وُہ چاند ہُوں اپنے چھُوٹا تاروں سے میں تھا اپنوں سے کھا کے ٹھوکر بِچھڑا پیاروں سے میں تھا تھا بھنور میں پیہم کٹا کِناروں سے میں تھا اے مِرے دِلِ مُضطر دیکھ اب سنبھل بھی جا اُس کے در پہ سرِ شام جو چراغ جلتے ہیں دیکھ روشنی سی اس دِل کے داغ جلتے ہیں دِل واں ٹُوٹتے ہیں سپنوں کے باغ جلتے ہیں اے مِرے دِلِ مُضطر دیکھ اب سنبھل بھی جا میں کرُوں کیا تنہا اُداس رات کا اب کے چاندنی سے دِل کی اس واردات کا اب کے اُس کی گلی میں گُم سے اِلتفات کا اب کے اے مِرے دِلِ مُضطر دیکھ اب سنبھل بھی جا زہر لگتی ہیں اب مُجھ کو پیار کی باتیں یہ وفا کے قِصّے ، قول و قرار کی باتیں جھُوٹے سب ہیں سپنے ، بس ہیں فرار کی باتیں اے مِرے دِلِ مُضطر دیکھ اب سنبھل بھی جا من یہ کہتا ہے اِس شب بادہ خانے کو ہی چل دشت کو ہی چل تُو خاک اُڑانے کو ہی چل مان جا اب اُس کے پھِر آستانے کو ہی چل اے مِرے دِلِ مُضطر دیکھ اب سنبھل بھی جا