باپ ** نظم ** اظہر ناظؔر

_____________ باپ _____________


دُنیا میں تُجھ کو بھی مُیسّر گر فرِشتہ ہے

ہیں باپ کہتے جِس کو وُہ ایک رِشتہ ہے

پہچان کا تِری وُہ پہلا حوالہ ہے

ماں کے ہی بعد رِشتہ تقدِیس والا ہے

ہے سخت  دُھوپ میں وُہ تو ساۓ جیسا اب

خالی سی زِندگی میں سرماۓ جیسا اب

دے کے سہارا جِس نے تُجھ کو چلایا تھا

جِیون کو جِینا بھی تُجھ کو ہی سِکھایا تھا

جِس کی ہے سعی نے تُجھ کو بُنیاد دی

ہر کامیابی  پے تیری جِس نے داد دی

جِس کے ہیں وصف تُجھ کو وِرثے میں مِلے 

انمول  سے تُحفے جو  سستے میں مِلے

کمزور لمحوں میں جِس نے جِینا سمجھایا

پھر ہنس کر اشکوں کو بھی پِینا سِکھایا

ہے جِیت کے لِئے تیری جو ہارا ہے

جِیتے جی خُود کو جِس نے بھی مارا ہے

سپنے جو اب ہے تیری آنکھوں سے دیکھتا 

تُجھ پے ہے وار کر جاں اپنی کو پھینکتا

تیری ہر بلا کے آگے وُہ ڈھال ہے

ہے مِلتی باپ سی شفقت خال خال ہے

گر باپ کا ہی سایہ جس سر سے اُٹھ جاۓ

پھر وُہ یتِیم اپنا دُکھڑا کِسے سُناۓ 


(اظہر ناظؔر)


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog