فون کال ** نظم ** اظہر ناظؔر

کبھی یہ واردات ہم پہ گُزری تھی !!!! کسی کی یاد میں کسی کی نذر 


میری ابتدائی شاعری سے ایک نظم آپ سب کی نذر !!!!


**** فون کال ****


ہوا کے دوش پہ اس دن جب پہلی بار

فون پہ تیری بہتے جھرنوں سی آواز

مری سماعتوں میں رس گھول گئی تھی

تیرے لہجے میں بلا کی شوخی تھی

جسے اس لمحے کوئی شرارت جان کر

تجھے کوئی انجان , اجنبی جان کر

میں نے پھر ریسیور رکھ دیا تھا

تمہیں دوبارہ کال سے منع کیا تھا

پھر دن میں کئی کئی بار لگاتار

مجھے تیرے نمبر سے فون آتا رہا

تا وقتیکہ مجھے پہلی بار یوں لگا

کہ یہ محض تمہاری شرارت نہیں تھی

پھر یونہی باتوں کا انبار لگا تھا

بن بات کئے رہنا دشوار لگا تھا

ہاں بس اتنا یاد ہے مرا پوچھنا

کون ہو تم آخر کس دیس سے یہاں آئ ہو

کیوں تتلی سی تم یوں اڑتی پھرتی ہو

پھر ہفتوں ہی بن ملے , بنا دیکھے

ہوا کے دوش پر اور فون کے اس پار

ہمارے بیچ عہد و پیماں ہوتے رہے

ہم تم اپنی اپنی رو میں بہتے گۓ 

یوں لگا کہ برسوں کی شناسائی تھی

درمیاں حا ئل کسی جنم کی جدائی تھی

پھر جب پہلی بار ہم سر شام ملے تھے

اور میں دم بخود تم کو دیکھا گیا تھا

اس پل یہ حقیقت مجھ پہ آشکار ہوئی تھی

کہ تم حیرت انگیز حد تک ویسی ہی تھیں

جیسی دل کے آئینے میں مجھے دکھی تھیں

وہ فون کی آدھی ملاقات بھی پوری تھی

یہ دل کرشمہ ساز جو سینے میں دھڑکتا ہے

ہوا کے دوش پہ , فون کے اس پار , دور سے ہی

یہ سچ ہے کہ سب سن لیتا ہے , دیکھ لیتا ہے


(اظہر ناظؔر)


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog