ہزار تشنہ سی حسرتوں کے بوجھ تلے ** غزل ** اظہر ناظؔر

حرام کو بھی اِک دم حلال کرتا ہے 

 کبھی جو دِل نئی کوئی مجال کرتا ہے

ہزار تشنہ سی حسرتوں کے بوجھ تلے

یہ جو دھڑکتا ہے ، دِل کمال کرتا ہے

یہ دِل بھی تو رہتا ہے عجب سےمخمصے میں

جواب گھڑتا ہے خُود ہی سوال کرتا ہے

بچھڑ جو جائے کوئی اپنا تو تڑپتا ہے دِل

یہ دیر تک روتا ہے ، ملال کرتا ہے

چھُو لے جو آہٹ کوئی بھی میرے اِس در کو

یہ دِل اُچھلتا ہے ، تیرا خیال کرتا ہے

دھمال کرتا ہے اپنی ہی دُھن میں دل ایسے

کہ ہجر کو بھی میرے وصال کرتا ہے

یہ مُجھ میں رقص بھی کرتا ہے مُسکراتا ہے

خُوشی سے مُجھ کو دِل یُوں نہال کرتا ہے

الگ ہی ڈھنگ سے جینے کا عادی ہے دِل بھی

نہ مانے تو جینا یہ محال کرتا ہے

یہ دِل ہی تو ہے آخر کو تھک ہی جائے گا

یہی خیال مُجھے کیُوں نڈھال کرتا ہے

جو جینی ہے تو اِک سانس میں لے زندگی جی

یُوں رات دِن کیُوں اس کو وبال کرتا ہے

 

(اظہر ناظؔر)


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog