مُنتخب اشعار ** اظہر ناظؔر

مُنتخب اشعار :- 


میں اِک اکیلا سِتارہ کہاں کہاں چمکُوں

سبھی طرف ہی اندھیرا دِکھائی دیتا ہے


؀اظہر ناظؔر


تیرے توسُّط سے جو ملی تھی 

وہ بھی خُوشی کتنی عارضی تھی


؀اظہر ناظؔر


کتنے ہی رنگ کے سپنوں سے بچا کے دامن

تیرے بھی نام کی حسرت میں اُٹھا لایا تھا


؀اظہر ناظؔر


•  چھوٹی سی بھی خُوشی کا جشن منایا کیجئے

کِسے معلُوم کہ کل یہ بھی رہے یا نہ رہے 


؀اظہر ناظؔر


کچھ اپنوں کے لئے ہی تھا جینا پڑا ہمیں

ورنہ اے زندگی تُو بھی تو مہرباں نہ تھی


؀اظہر ناظؔر


دے بھی دے میرے محرما اِکبار

تیرے ترکش میں بوسے جتنے ہیں   


؀اظہر ناظؔر


مُجھے مِل تو گیا یہ جہاں سارا

تیری کمی پر تیری کمی تھی


؀اظہر ناظؔر


پھر تیرے بعد نہ آیا کوئی نہ آنے دیا

 کبھی جو آیا بھی خیالِ غلط اُسے جانے دیا


؀اظہر ناظؔر


جُھوٹے سے من گھڑت فسانوں میں 

حسبِ ذائقہ محبت ھے 


؀اظہر ناظؔر


اِک تِرے ساتھ کی حسرت یہاں تک لائی مُجھے

ورنہ کُچھ بھی تو نہ تھا رختِ سفر میں میرے

 

؀اظہر ناظؔر


آپ دِل کے نگر میں کیا آئے

قریہ قریہ  مہک اُٹھا ہے


؀اظہر ناظؔر


آپ کے نہیں اِختیار میں 

یہ بدن ہمیں سونپ دیجئے


؀اظہر ناظؔر


میں پرستِش کی حد سے لوٹا ہُوں

اب مُحبّت فضُول لگتی ہے


؀اظہر ناظؔر


دیکھو بُرا نہ تُم ماننا

میں فقط پھُول ہی بھیجُوں گا


؀اظہر ناظؔر


تُجھ سے منسُوب دِل کے موسموں پے

آج پت جھڑ کے ڈیرے ہیں جاناں


؀اظہر ناظؔر


حُسن والوں نے نہ چھوڑی کوئی کسر یُوں تو

پارسائی کی مگر ہم نے قسم کھائی تھی


؀اظہر ناظؔر


دُنیا نے مصلحت جس کا نام رکھا ہے

نِری مُنافقت ہے اور کُچھ بھی تو نہیں 


؀اظہر ناظؔر


چٹان جیسے حوصلے _جو چیر دے

اُس ایک شبد کو اُداسی کہتے ہیں


؀اظہر ناظؔر


جہاں سے تُم نہیں گُزرتے ہو

اب وُہ رستے کہیں نہیں جاتے


؀اظہر ناظؔر


مُجھ کو سفر ہے درپیش اب ،اُن کی گلی کا

اِن دھڑکنوں سے کہہ دو اوقات میں رہیں 


؀اظہر ناظؔر


یُوں میرے ساتھ چلنے والے

تیرے تیور __ جُدائی کے ہیں


؀اظہر ناظؔر


مُسکرا دیتا ہُوں اُسے دیکھ کر

اور وُہ سمجھتی ہے بُہت خُوش ہُوں میں


؀اظہر ناظؔر


پھُول مہکتے رہیں گے یُونہی

خُوشبُو کِسی کی اسِیر نہیں


؀اظہر ناظؔر


مُحبّت کو میری خطا جانتا ہے

عجب شخص ہے وُہ کیا جانتا ہے


؀اظہر ناظؔر


یہ کیسا خالی سا پن ہے اب کے

تُو بھی نہیں ہے ، میں بھی نہیں ہُوں


؀اظہر ناظؔر


اِدھر پاس رہ کے سُلگتے ہیں پنچھی

سبھی دوش ہوتا نہیں فاصلوں کا


؀اظہر ناظؔر


برف اِن بالوں کی یہ کہہ رہی ہے 

تُو مُحبّت نہیں جوانی تھی


؀اظہر ناظؔر


تُجھے اُس زمانے کا ڈر ہے ناں

کِسی کی خُوشی میں جو خُوش نہیں


؀اظہر ناظؔر


حسرتوں کے بھی  دفِینے ہیں اِدھر

اور ارمانوں کی دِل میں جا بھی ہے


؀اظہر ناظؔر


تُو نے دیکھا ہی نہیں منزلوں کا بھی غرُور

نارسائی ہے کیا  تُو جانتا نہیں ابھی


؀اظہر ناظؔر


میرے بھی حِصّے کا آسماں تُو رکھ

مُجھ کو تو اپنی زمین بُہت ہے


؀اظہر ناظؔر


تو بھی قبُول ہے اور تو بھی قبُول ہے

ہے چار کی اجازت ، تو سوچنا کیا ؟؟


؀اظہر ناظؔر


وُہ مِرے سامنے جب ہوتے ہیں

دِل تکلُّف بھی بُہت کرتا ہے


؀اظہر ناظؔر


میں نے دیکھا ہے کئی بار پلٹ کے

تُم کہِیں بھی تو  دِکھائی نہیں دیتے


؀اظہر ناظؔر


پلٹ آنے کی بھی کرنا سبیل تُم

یہ جُدائ ہے کوئی موت تو نہیں


؀اظہر ناظؔر


برسوں ہی خُود سے میں اُلجھا سا رہا ہُوں

اِختلاف اب مِری عادت ہو گئی ہے


؀اظہر ناظؔر


اِک بھرم تھا تِری رفاقت کا

پر کیا فاصلے بھی درمیاں تھے


؀اظہر ناظؔر


دِکھاۓ گی زندگی کیا کُچھ

کیا کیا تو ہے دیکھا ہم نے


؀اظہر ناظؔر


میں مٹّی کے گھروندے بچاتا رہا

ہیرے موتی مُجھ سے جُدا ہوتے گئے


؀اظہر ناظؔر


یُوں تو اُس نے خُوشی اوڑھ رکھی تھی

مگر اِک درد تھا اُس کی باتوں میں


؀اظہر ناظؔر


داغ بھی دے اے زندگی اِک بار

تیرے ترکش میں تِیر جتنے ہیں


؀اظہر ناظؔر


تُجھ پہ ہیں ہم فریفتہ جاناں

تیرے یہ شعر بس بہانہ ہیں


؀اظہر ناظؔر


دو بُوند مِلی تھی شبنم کے بھی عِوض

کِس دُھوپ میں ہم کو جُھلسایا گیا ہے


؀اظہر ناظؔر


رُکے بھی تو قدم کہاں آ کر

تِری دہلیز تھی ، بُلاوا نہ تھا                


؀اظہر ناظؔر


تیرے بغیر  جو جئے جاتے ہیں

سچ میں کمال ہی کئے جاتے ہیں


؀اظہر ناظؔر


اِسی بازی میں جِیتنا ہے تُجھے

مُجھے  اگلا جنم نہیں لینا


؀اظہر ناظؔر


جُدا زمانے سے میرا مزاج تھا

جُدا زمانے میں جینا پڑا مُجھے


؀اظہر ناظؔر


کرو گے بات وفا کی تو بُرا مانیں گے

حُسن والے نہیں لیتے یہ بلا اپنے سر 


؀اظہر ناظؔر


پردے کا تکلُّف نہ کیجئے

ہم نے چاند کو دیکھ رکھا ہے


؀اظہر ناظؔر


ہرج ہی کیا تھا منانے میں ہم کو

جُدا ہونے کی تُم کو تھی جلدی جاناں


؀اظہر ناظؔر


قفس سے ہو کر آزاد میں جاؤُں گا کِدھر

کہ آزاد دُنیا کے بھی اپنے بِکھیڑے ہیں


؀اظہر ناظؔر


اِن آنکھوں نے خواب بُہت دیکھے تھے

اِن آنکھوں پہ واجب ہے تاوان بُہت


؀اظہر ناظؔر


اطراف میں تھے دوستوں سے دُشمن

میں چاروں طرف سے گھِرا ہُوا تھا


؀اظہر ناظؔر


توڑِیے گا دِل کو آپ پھِر سے

مُیسّر یہ سہُولت اب نہ ہو گی


؀اظہر ناظؔر


کیا لوگ تھے کبھی سوچنا

تِری بزم سے جو وِداع  ہوۓ


؀اظہر ناظؔر


شاہزادی میں تیرا شاعرِ گُمنام

دِل کو رکھتا نہ کاغذ پے تو مر جاتا


؀اظہر ناظؔر


اب وُہ پہلے سی مُحبّت نہیں باقی

اب کِسی بات کا صدمہ نہیں ہوتا


؀اظہر ناظؔر


آپ کا یہ سراپا ہے نُورِ نظر

شاعری آپ کے بس کا کام نہیں


؀اظہر ناظؔر


پڑھنے والے ہی نہیں باقی ورنہ

رب آج بھی مِلتا اِن کتابوں میں ہے


؀اظہر ناظؔر


تِرے تشنگاں کو گوارا نہیں 

کسی اور کے در پہ دینا صدا


؀اظہر ناظؔر


میں نے پُوچھا بھی نہیں تُو نے بتایا بھی نہیں

اے پری زاد  تِرا نام بھی تُجھ سا ہو گا


؀اظہر ناظؔر


قاعدہ ایک ہی رائج ہے اِدھر

کہ مرے ہُوۓ کو اور مارا جاۓ


؀اظہر ناظؔر


ســونے والـوں کـو کیا معلُـوم..

ہِـــجر کی رات کتنی کالی ہـے ؟؟


؀اظہر ناظؔر


سانحہ ہے کہ تیرا یہ ہِجر بھی اب

میری اِس زِندگی میں شُمار ہو گا


؀اظہر ناظؔر


حسرتیں ہوں وِداع اِس دِل سے

سچ میں تُم جو ہمارے ہو جاؤ


؀اظہر ناظؔر


مُجھ کو انہی سے زِندگی کشِید کرنے دے

 حُسن کی یہ مُورتیں جو قریب میرے ہیں


؀اظہر ناظؔر


جلے  گا دل ہمارا بھی کب تک

تیری محفل میں روشنی کے لئے


؀اظہر ناظؔر


دراصل آپ کو پُہنچنے کے لئے 

مُجھے بھی پُورے قد سے جھُکنا پڑتا ہے 


؀اظہر ناظؔر


یہ جیت اور یہ مات ہے بس اک دھوکہ

کاسے پھر بھی اپنے خالی رہیں گے


؀اظہر ناظؔر


دل نے ہی نہ مانی یہ بات ورنہ ہم اِس کو 

تیرے جیسے دو چار اور بھی کھلونے  لا دیتے


؀اظہر ناظؔر


اُنگلیاں تُجھ کو چھُونے سے  ڈرتی رہیں

اِن نظروں نے مگر وقت پہ احسان کیا


؀اظہر ناظؔر


میرے دلِ سادہ کو ہو خبر

اب کے صفِ دُشمناں میں تُو بھی ہے


؀اظہر ناظؔر


گو زخم خوردہ ہوں میں مگر ہارا تو نہیں ہوں

جاں ہے سلامت اور معرکہ ہے ابھی بھی باقی


؀اظہر ناظؔر


تیری محفل سے جو اُٹھ گئے ہیں

زِندگی اب تماشا ہے اُنہیں


؀اظہر ناظؔر


چُن دیے جائیں گے اُسی میں جناب

کبھی دیوار جو اُٹھائیں گے آپ


؀اظہر ناظؔر


گُماں ہے میرے سپنوں کی منزل

ہُو بہُو سچ میں تیرے جیسی ہو گی


؀اظہر ناظؔر


تیری تصویر ہے کہ غم کا جہاں ہے

تھکن صدیوں کی چہرے سے عیاں ہے


؀اظہر ناظؔر


ایک مِصرعے سے ہی دل کے پار ہوتے ہیں

ہم وُہ بازی گر ہیں جو تماشا بھی نہیں کرتے


؀اظہر ناظؔر


لگا کے آگ تُم چلے ہو کدھر

ابھی تو دل کے داغ جلنے ہیں


؀اظہر ناظؔر


خبر کیا تھی چراغ لے کر

تُو ڈُھونڈنے سے نہ پھر ملے گا


؀اظہر ناظؔر


یُوں تو یہ مانگتا ہے کیا کُچھ پر

ہر جگہ دل کی کہاں چلتی ہے

 

؀اظہر ناظؔر


تُجھے بھُولنے کے کئی بہانے ملے مگر

کیا کرتا میں کہ یہ دِل ہی سالا مُکر گیا


؀اظہر ناظؔر


زندگی کیا ہے ایک جُوا ہے

کھیلا کھیلا نہ کھیلا تو بھی کھیلا


؀اظہر ناظؔر


حُوریں ہلکان ہوئی جاتی ہیں

شیخ  آمادہ نہیں مرنے کو


؀اظہر ناظؔر


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog