دل کے بھی کھل کھل جانے کا امکان باقی رہ گیا ** غزل ** اظہر ناظؔر

دل کے بھی کھِل کھِل جانے کا امکان باقی رہ گیا

اُن کی نہ جب آمد ہُوئی ، اعلان باقی رہ گیا


الزام پھر الزام ہی تھا جاتے جاتے ہی گیا

بہُتان پھر بُہتان تھا ، بُہتان باقی رہ گیا


سارے ہی تو پنچھی سبھی حیوان پردہ کر گئے 

انسان پھر انسان تھا ، انسان باقی رہ گیا


میں نے گو اُس کے سارے ہی قرضے تھے چُکا بھی دیے

احسان پھر احسان تھا ، احسان باقی رہ گیا


جتنے  کٹھن تھے کام چُن چُن کے کئے ہم نے مگر

آسان پھر آسان تھا ، آسان باقی رہ گیا


یُوں پارسائی میں فرشتوں کو دے ڈالی مات پر

شیطان پھر شیطان تھا ، شیطان باقی رہ گیا


میں نے تھے اُس سے رشتے ناطے توڑ ہی ڈالے مگر

رومان پھر رومان تھا ، رومان باقی رہ گیا 


ہے آرزُو اُس کی نہ حسرت دل میں کوئی اب رہی

ارمان پھر ارمان تھا ، ارمان باقی رہ گیا


 گو بُت تھے غارت گر مگر تھا لوٹنا ہم کو پڑا

ایمان پھر ایمان تھا ، ایمان باقی رہ گیا


اِنہی چراغوں نے کئے کیا کیا تھے اپنے تئیں جتن

طُوفان پھر طُوفان تھا ، طُوفان باقی رہ گیا


جو اُڑ گیا پنچھی رہ خالی پنجرہ پیچھے ہی گیا

سامان پھر سامان تھا ،سامان باقی رہ گیا 


؀اظہر ناظؔر


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog