شام کے سائے بھی گہرے ہُوئے ہیں ** غزل ** اظہر ناظؔر

ہم کہ برسوں کے جو جاگے ہُوئے ہیں

اپنی ہی نیند سے بھاگے ہُوئے ہیں


جو کنارے لئے پھرتے تھے ساتھ

آج وُہ بھی یہاں ڈُوبے ہُوئے ہیں


برملا کہتے تھے جو کُچھ نہیں ہے

آج وُہ لوگ بھی سہمے ہُوئے ہیں


کُوئی ہم کو بھی ڈرائے گا کیا

ہم کہ خُود سے ہی جو سہمے ہُوئے ہیں 


دو ہی پل میں کہاں مل پائیں گے

ہم کہ صدیوں سے جو بچھڑے ہُوئے ہیں


ہم کو یہ زخم نئے اب کہاں ہیں  

ہم نے یہ کرب بھی جھیلے ہُوئے ہیں


لوٹنے ہی لگے ہیں پنچھی سبھی

شام کے سائے بھی گہرے ہُوئے ہیں


بھر نہ جائیں یہ بھی گھاؤ کہیں سے 

زخموں پے درد کے پہرے ہُوئے ہیں

 

ابھی بہنے کی اِجازت نہیں ہے

اشک جو آنکھ میں ٹھہرے ہُوئے ہیں


پتھّروں  سے یہی نینن اپنے

دید کو تیری ہی ترسے ہُوئے ہیں 


؀اظہر ناظؔر


#Azharnaazirurdupoetry


Comments

Popular posts from this blog