جو رستہ ہی ملا ہمیں تو ہاتھ سے سفر گیا ** غزل ** اظہر ناظؔر

وُہ عکس بن کے دِل کے آئینے میں جب اُتر گیا

رفیق بن کے سنگ سنگ چلا میں جدھر گیا

میں شب و روز گڑگڑاتا ہُوں اور اشکبار ہُوں

مرے خُدا کدھر مری دُعا کا بھی اثر گیا 

بھٹک کے اپنا ہم ستارہ ڈُھونڈتے سے پھرتے تھے

جو رستہ ہی ملا ہمیں تو ہاتھ سے سفر گیا 

ہے پُوچھنا ستمگروں سے بھی جفاؤں کا سبب

میں اُن کے در پہ اپنے پھر نصیب سے اگر گیا

چلو پھر اِتنا  تو ہُوا پا کر تُمہیں اے ہمنشیں 

مزاج سے ہی اپنے اُس کے بعد اگر مگر گیا

جسے تھا جانا ہم فریب خُوردوں نے ہی چارہ گر

وُہ شخص قافلے سے آگے کترا کے گُزر گیا

کتابی باتوں کو جو اوڑھنا بچھونا مانے تھے

کدھر کو آخر اُنکے بھی نصیب کا ثمر گیا 

غرُوب ہی سے ایک پنچھی آسماں کو تکتا ہے

رو رو کے پُوچھتا ہے یہ کدھر کو میرا گھر  گیا

سبب زیاں کا پُوچھتے ہو تُم کہ کیا کدھر گیا ؟؟

سبھی گیا وہیں تو دل گیا ، جہاں جگر گیا


؀اظہر ناظؔر


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog