مُنتخب اشعار ** اظہر ناظؔر
مُنتخب اشعار :- کوئی بھی رنجش اب تو نہیں ہے سیدھی سیدھی سی دُشمنی ہے (اظہر ناظؔر) یہ بھی اذیّت اُس نے میرے نام رکھی بِک گیا سرِبازار اور دعوتِ عام رکھی (اظہر ناظؔر) یہ دِل کی ہے مات پیارےسمجھا یہ بازی پھر سے نہیں کھیلی جاتی (اظہر ناظؔر) تیرے توسُّط سے جو ملی تھی وُہ بھی خُوشی کتنی عارضی تھی (اظہر ناظؔر) وُہ مچائیں دھما چوکڑی آج ہم ہاتھ ملتی رہ جائے یہ تنہائی بھی (اظہر ناظؔر) تیرے بندِ قبا سے جُڑے قِصّے جھُوٹے ہی سہی پر ہوش رُبا ہیں (اظہر ناظؔر) یہ حُسن و عِشق کا ہی جوڑ بھی نِرالا ہے حسِینوں کی بغل میں ہر سیاہ کالا ہے (اظہر ناظؔر) ہُوئے جو ہِجر میں گوشہ نشِیں تیرے سبھی کلیوں پہ شباب آ گیا جاناں (اظہر ناظؔر) آج گُلابوں نے توڑا ہے دِل آج یہ خار اپنے سے لگے ہیں (اظہر ناظؔر) مُجھے مِل تو گیا یہ جہاں سارا تیری کمی پر تیری کمی تھی (اظہر ناظؔر) کتنے ہی رنگ کے سپنوں سے بچا کے دامن تیرے بھی نام کی حسرت میں اُٹھا لایا تھا (اظہر ناظؔر) ہمیں چھوڑ کے آ تُو مل لے ہمارے دُکھوں سے بھی کہ ھم سے ذرا پہلے غم یہ ہمارے آتے ہیں (اظہر ناظؔر) پھر تیرے بعد نہ آیا کوئی نہ آنے دیا کبھی جو آیا بھی خ