مُنتخب اشعار ** اظہر ناظؔر

مُنتخب اشعار :-


میں بناتا ہُوں کاغذ پہ آنکھیں تِری

جب کبھی بھی تُجھے بھُولنے لگتا ہُوں

....

رُکے بھی تو قدم کہاں آ کر

تِری دہلیز تھی بُلاوا نہ تھا

.....

درد کی دولت بکثرت ملی دِل کو

کی فقیری میں بھی ہم نے بادشاہی


(اظہر ناظؔر)


مُنتخب اشعار :-


تُجھ سے منسُوب دِل کے موسموں پے

آج پت جھڑ کے _ ڈیرے ہیں جاناں


(اظہر ناظؔر)


حُسن والوں نے نہ چھوڑی کوئی کسر یُوں تو

پارسائی کی مگر ____ ہم نے قسم کھائی تھی


(اظہر ناظؔر)


دُنیا نے مصلحت جس کا نام رکھا ہے

نِری مُنافقت ہے اور کُچھ بھی تو نہیں 


(اظہر ناظؔر)


چٹان جیسے حوصلے _جو چیر دے

اُس ایک شبد کو اُداسی کہتے ہیں


(اظہر ناظؔر)


جہاں سے تُم نہیں گُزرتے ہو

اب وُہ رستے کہیں نہیں جاتے


(اظہر ناظؔر)


مُجھ کو سفر ہے درپیش اب ،اُن کی گلی کا

اِن دھڑکنوں سے کہہ دو اوقات میں رہیں 


(اظہر ناظؔر)


یُوں میرے ساتھ چلنے والے

تیرے تیور  جُدائی کے ہیں


(اظہر ناظؔر)


مُسکرا دیتا ہُوں اُسے دیکھ کر

اور وُہ سمجھتی ہے بُہت خُوش ہُوں میں


(اظہر ناظؔر)


پھُول مہکتے رہیں گے یُونہی

خُوشبُو  کِسی کی اسِیر نہیں


(اظہر ناظؔر)


مُحبّت کو میری خطا جانتا ہے

عجب شخص ہے وُہ کیا جانتا ہے


(اظہر ناظؔر)


کتنے ہی رنگ کے سپنوں سے بچا کے دامن

تیرے بھی نام کی حسرت میں اُٹھا لایا تھا


(اظہر ناظؔر)


یہ کیسا خالی سا پن ہے  اب کے

تُو بھی نہیں ہے ، میں بھی نہیں ہُوں


(اظہر ناظؔر)


اِدھر پاس رہ کے سُلگتے ہیں پنچھی

سبھی دوش ہوتا نہیں فاصلوں کا


(اظہر ناظؔر)


برف اِن بالوں کی یہ کہہ رہی ہے 

تُو مُحبّت نہیں جوانی تھی


(اظہر ناظؔر)


تُجھے اُس زمانے کا ڈر ہے ناں

کِسی کی خُوشی میں جو خُوش نہیں


(اظہر ناظؔر)


حسرتوں کے بھی دفِینے ہیں اِدھر

اور ارمانوں کی دِل میں جا بھی ہے


(اظہر ناظؔر)


تُو نے دیکھا ہی نہیں منزلوں کا بھی غرُور

نارسائی ہے کیا تُو جانتا نہیں ابھی


(اظہر ناظؔر)


میرے بھی حِصّے کا آسماں تُو رکھ

مُجھ کو تو اپنی زمین بُہت ہے


(اظہر ناظؔر)


تو بھی قبُول ہے اور تو بھی قبُول ہے

ہے چار کی اجازت ، تو سوچنا کیا۔!!


(اظہر ناظؔر)


وُہ مِرے سامنے جب ہوتے ہیں

دِل تکلُّف بھی بُہت کرتا ہے


(اظہر ناظؔر)


میں نے دیکھا ہے کئی بار پلٹ کے

تُم کہِیں بھی تو دِکھائی نہیں دیتے


(اظہر ناظؔر)


پلٹ آنے کی بھی کرنا سبیل تُم

یہ جُدائ ہے کوئی موت تو نہیں


(اظہر ناظؔر)


برسوں ہی خُود سے میں اُلجھا سا رہا ہُوں

اِختلاف اب مِری عادت ہو گئی ہے


(اظہر ناظؔر)


اِک بھرم تھا تِری رفاقت کا

پر کیا فاصلے بھی درمیاں تھے


(اظہر ناظؔر)


دِکھاۓ گی زندگی کیا کُچھ

کیا کیا تو ہے دیکھا ہم نے


(اظہر ناظؔر)


میں مٹّی کے گھروندے بچاتا رہا

ہیرے موتی مُجھ سے جُدا ہوتے گئے


(اظہر ناظؔر)


یُوں تو اُس نے خُوشی اوڑھ رکھی تھی

مگر اِک درد تھا  اُس کی باتوں میں


(اظہر ناظؔر)


داغ بھی دے اے زندگی اِک بار

تیرے ترکش میں تِیر جتنے ہیں


(اظہر ناظؔر)


یہ کیسا خالی سا پن ہے اب کے

تُو بھی نہیں ہے ، میں بھی نہیں ہُوں


(اظہر ناظؔر)


تُجھ پہ ہیں ہم فریفتہ جاناں

تیرے یہ شعر بس بہانہ ہیں


(اظہر ناظؔر)


دو بُوند مِلی تھی شبنم کے بھی عِوض

کِس دُھوپ میں ہم کو جُھلسایا گیا ہے


(اظہر ناظؔر)


تیرے بغیر جو جئے جاتے ہیں

سچ میں کمال ہی کئے جاتے ہیں


(اظہر ناظؔر)


اِسی بازی میں جِیتنا ہے تُجھے

مُجھے اگلا جنم نہیں لینا


(اظہر ناظؔر)


جُدا زمانے سے میرا مزاج تھا

جُدا زمانے میں جینا پڑا مُجھے


(اظہر ناظؔر)


کرو گے بات وفا کی تو بُرا مانیں گے

حُسن والے نہیں لیتے یہ بلا اپنے سر 


(اظہر ناظؔر)


پردے کا تکلُّف نہ کیجئے

ہم نے چاند کو دیکھ رکھا ہے


(اظہر ناظؔر)


ہرج ہی کیا تھا منانے میں ہم کو

جُدا ہونے کی تُم کو تھی جلدی جاناں


(اظہر ناظؔر)


قفس سے ہو کر آزاد میں جاؤُں گا کِدھر

کہ آزاد دُنیا کے بھی اپنے بِکھیڑے ہیں


(اظہر ناظؔر)


اِن آنکھوں نے خواب بُہت دیکھے تھے

اِن آنکھوں پہ واجب ہے تاوان بُہت


(اظہر ناظؔر)


اطراف میں تھے دوستوں سے دُشمن

میں چاروں طرف سے گھِرا ہُوا تھا


(اظہر ناظؔر)


توڑِیے گا دِل کو آپ پھِر سے

مُیسّر یہ سہُولت اب نہ ہو گی


(اظہر ناظؔر)


کیا لوگ تھے کبھی سوچنا

تِری بزم سے جو وِداع  ہوۓ


(اظہر ناظؔر)


شاہزادی میں تیرا شاعرِ گُمنام

دِل کو رکھتا نہ کاغذ پے تو مر جاتا


(اظہر ناظؔر)


اب وُہ پہلے سی مُحبّت نہیں باقی

اب کِسی بات کا صدمہ نہیں ہوتا

(اظہر ناظؔر)


آپ دِل کے نگر میں کیا آۓ

قریہ قریہ مہک اُٹھا ہے


(اظہر ناظؔر)


آپ کا یہ سراپا ہے نُورِ نظر

شاعری آپ کے بس کا کام نہیں


(اظہر ناظؔر)


پڑھنے والے ہی نہیں باقی ورنہ

رب آج بھی مِلتا اِن کتابوں میں ہے


(اظہر ناظؔر)


تِرے تشنگاں کو گوارا نہیں 

کسی اور کے در پہ دینا صدا


(اظہر ناظؔر)


دیکھو بُرا نہ تُم ماننا

میں فقط پھُول ہی بھیجُوں گا


اظہر ناظؔر


میں نے پُوچھا بھی نہیں تُو نے بتایا بھی نہیں

اے پری زاد تِرا نام بھی تُجھ سا ہو گا


(اظہر ناظؔر)


قاعدہ ایک ہی رائج ہے اِدھر

کہ مرے ہُوۓ کو اور مارا جاۓ


(اظہر ناظؔر)


ســونے والـوں کـو کیا معلُـوم..

ہِـــجر کی رات کتنی کالی ہـے..!!


اظــہر نـاظؔـر


سانحہ ہے کہ تیرا یہ ہِجر بھی اب

میری اِس زِندگی میں شُمار ہو گا


(اظہر ناظؔر)


حسرتیں ہوں وِداع اِس دِل سے

سچ میں تُم جو ہمارے ہو جاؤ


(اظہر ناظؔر)


مُجھ کو انہی سے زِندگی کشِید کرنے دے

 حُسن کی یہ مُورتیں جو قریب میرے ہیں


(اظہر ناظؔر)


جلے  گا دل ہمارا بھی کب تک

تیری محفل میں روشنی کے لئے


(اظہر ناظؔر)


دراصل آپ کو پُہنچنے کے لئے 

مُجھے بھی پُورے قد سے جھُکنا پڑتا ہے 


(اظہر ناظؔر)


دل نے ہی نہ مانی یہ بات ورنہ ہم اِس کو 

تیرے جیسے دو چار اور بھی کھلونے لا دیتے


(اظہر ناظؔر)


اُنگلیاں تُجھ کو چھُونے سے  ڈرتی رہیں

اِن نظروں نے مگر وقت پہ احسان کیا


(اظہر ناظؔر)


میرے دلِ سادہ کو ہو خبر

اب کے صفِ دُشمناں میں تُو بھی ہے


(اظہر ناظؔر)


گو زخم خوردہ ہوں میں مگر ہارا تو نہیں ہوں

جاں ہے سلامت اور معرکہ ہے ابھی بھی باقی


(اظہر ناظؔر)


تیری محفل سے جو اُٹھ گئے ہیں

زِندگی اب تماشا ہے اُنہیں


(اظہر ناظؔر)


چُن دیے جائیں گے اُسی میں جناب

کبھی دیوار جو اُٹھائیں گے آپ


(اظہر ناظؔر)


گُماں ہے میرے سپنوں کی منزل

ہُو بہُو سچ میں تیرے جیسی ہو گی


(اظہر ناظؔر)


تیری تصویر ہے کہ غم کا جہاں ہے

تھکن صدیوں کی چہرے سے عیاں ہے


(اظہر ناظؔر)


ایک مِصرعے سے ہی دل کے پار ہوتے ہیں

ہم وُہ بازی گر ہیں جو تماشا بھی نہیں کرتے


(اظہر ناظؔر)


لگا کے آگ تُم چلے ہو کدھر

ابھی تو دل کے داغ جلنے ہیں


(اظہر ناظؔر)


خبر کیا تھی چراغ لے کر

تُو ڈُھونڈنے سے نہ پھر ملے گا


(اظہر ناظؔر)


یُوں تو یہ مانگتا ہے کیا کُچھ پر

ہر جگہ دل کی کہاں چلتی ہے

 

(اظہر ناظؔر)


تُجھے بھُولنے کے کئی بہانے ملے مگر

کیا کرتا میں کہ یہ دِل ہی سالا مُکر گیا


(اظہر ناظؔر)


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog