موتیے کے ہار ** نظم ** اظہر ناظر

**** موتیے کے ہار ****


روز دفتر سے واپسی پر

 چوک کی سُرخ بتّی پہ 

موتیے کے ہار بیچنے والا

جب اک پھول سا بچّہ

مِری گاڑی کے پاس ہوتا ہے

میں خرِید لیتا ہُوں کُچھ ہار 

اور پھِر اُنہیں پیار سے 

سامنے مِرر پہ ڈال دیتا ہوں

موتیے کی سُوندھی سی خُوشبُو

مُجھے کُچھ یاد دِلاتی ہے

خواب نگر میں کھینچ لاتی ہے

ہاں تم کو موتیے کے گجرے پسند تھے

گھر پُہنچ  کر تم کو وہاں نہ پا کر

میں مخمُوم سا ہو جاتا ہوں

بیڈ پہ لیٹے تُمہیں سوچتا ہُوں

اور بے خبری کے کسی پل میں

نِیند کی وادی میں کھو جاتا ہُوں

اگلے روز تک موتیے کے وہ ہار

دُھوپ کی تمازت سے

مِرے ارمانوں کی طرح

مُرجھا سے گئے ہوتے ہیں

اگلی شام میں تازہ پھُولوں کو

ایک بار پھِر سے گاڑی کے

مِرر پہ ڈال کر کچُھ پل کو ہی

پھِر سے اِکبارکو جی لیتا ہُوں

مے تِری یاد کی پی لیتا ہُوں                   


                       (اظہر ناظر)


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog