زہر ** نظم ** اظہر ناظؔر

زہر گھولتے رہے 

 زہر اُنڈیلتے رہے

اپنی دُکانوں میں

سادہ لوح کانوں میں 

اپنی آواز میں

ساز و انداز میں 

ایسے لوگ بھی سبھی

کیا نہیں شریکِ جُرم

نام کے صحافی یہ

یہ  گویّے ، بہرُوپیے

یہ سبھی ہیں مُجرم  

قوم کے ہیں مُجرم 

قوم کے یہ بچّوں کے 

سپنوں کے چور سارے

اپنی ہوس کے مارے

اِن کو بھی کٹہرے میں لاؤ

تُم اِنہیں بھی مُجرم بُلواؤ

حشر سے بھی پیشتر 

ایک حشر بپا ہو گا

اِن غریبوں کا بھی تو 

کوئی اب خُدا ہو گا


(اظہر ناظؔر)  


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog