وصال یار ** غزل ** اظہر ناظؔر

جو یہ ہجِر ہی کہیں تھمتا ، وِصالِ یار ہوتا

یہاں خُوش نصِیبوں میں میرا بھی تو شُمار ہوتا


یہی مے کدے حُسن کے تھے نہ اِک جنّت سے کمتر 

میں بھی جو نِشاط ہوتا ، تُو الگ خُمار ہوتا


لگا لیتے ہم بھی اپنا دلِ نا رسا کہیں بھی

یہ جو ہوتا اپنا جو اِس پہ ھی اِختیار ہوتا 


اُسی اوّلیں نظر میں تھے غضب کے جو اِشارے

خُوشی مار دیتی گر سامنے شاہکار ہوتا 


ہمیں عُمروں کا وہ سنیاس بھی تو تھا پھر گوارا

ِترے وعدوں پے ستِمگر جو کہ اعتبار ہوتا


رکھی شرطِ آزمائش تھی ، اگر قبول ہوتی

شب و روز عِید ہوتی ، سماں نو بہار ہوتا


ہمیں بعد مرنے کے دوستو یاد کرتی دُنیا

اسی شہرِ عشق میں اپنا بھی اِک مِزار ہوتا


(اظہر ناظؔر)


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog