وحشی کو آج وحشی سے ڈر لگتا ہے ** غزل ** اظہر ناظؔر

وحشی کو آج وحشی سے ڈر لگتا ہے

کرنے والوں کو کرنی سے ڈر لگتا ہے

بات کرتے ہُوئے اب ٹھہر جاتا ہُوں

اپنے لہجے کی تلخی سے ڈر لگتا ہے 

یُوں کبھی اپنوں نے تھا ڈبویا مُجھے

آج بھی یارو کشتی سے ڈر لگتا ہے 

بیچ بازار میں نقلی اسقدر ہے

سامنے کی شے اصلی سے ڈر لگتا ہے

اِنہی نوٹنکیوں نے وُہ مارا ہے ناس 

ہر بڑی پُہنچی ہستی سے ڈر لگتا ہے

سارے چمن کو ڈبو کے مے میں ہمیں 

بہکے پھُولوں کی مستی سے ڈر لگتا ہے

اِس گرانی اور ارزانی کے بیچ میں 

بِکتی سستی سے سستی سے ڈر لگتا ہے 

اور کسی شے سے  ناظؔر نہیں لگتا ہے 

اُس کی ہاں اُس کی مرضی سے ڈر لگتا ہے


(اظہر ناظؔر) 


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog