وصال یار ** غزل ** چار شاعر ایک بحر اور ایک زمین ** اظہر ناظؔر

________ چار شاعر _ایک بحر اور ایک زمین ______ 


1-غزلِ غالب

__________


یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا


ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا


تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا


کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا


یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا


2-غزلِ داغ

__________


عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا

کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا


کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا

ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا


جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا

تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟


غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے

یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا


نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں

کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا


3- غزلِ امیر مینائی

______________


مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا

یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا


پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا

وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا


ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی

مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں خمار ہوتا


4- غزلِ  اظہر ناظر 

______________

جو یہ ہجِر ہی کہیں تھمتا ، وِصالِ یار ہوتا

یہاں خُوش نصِیبوں میں میرا بھی تو شُمار ہوتا


یہی مے کدے حُسن کے تھے نہ اِک جنّت سے کمتر 

میں بھی جو نِشاط ہوتا ، تُو الگ خُمار ہوتا


لگا لیتے ہم بھی اپنا دلِ نا رسا کہیں بھی

یہ جو ہوتا اپنا جو اِس پہ ھی اِختیار ہوتا 


اُسی اوّلیں نظر میں تھے غضب کے جو اِشارے

خُوشی مار دیتی گر سامنے شاہکار ہوتا 


ہمیں عُمروں کا وہ سنیاس بھی تو تھا پھر گوارا

ِترے وعدوں پے ستِمگر جو کہ اعتبار ہوتا


رکھی شرطِ آزمائش تھی ، اگر قبول ہوتی

شب و روز عِید ہوتی ، سماں نو بہار ہوتا


ہمیں بعد مرنے کے دوستو یاد کرتی دُنیا

اسی شہرِ عشق میں اپنا بھی اِک مِزار ہوتا


(اظہر ناظؔر)


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog