جو کھیل گئے سو کھیل گئے تو کھیل کے اب پچھتانا کیا ** غزل ** اظہر ناظؔر

جو کھیل گئے سو کھیل گئے تو کھیل کے اب پچھتانا کیا

یہ دو آنکھیں ہی تو بچی ہیں تُم کو دیں نذرانہ کیا 


شیشے کے اِن گھروں میں رہنے والے سارے پتّھر کے ہیں

ہم خاک نشینوں سے بھلا ان کو واسطہ کیا ، یارانہ کیا


خُون اس دِل کا کر کے زاہد کس مُنہ سے جنّت کو جاؤ گے

ہم رِندوں کو بچا ہے جو توڑ دیں وُہ بھی اِک پیمانہ کیا


جنہیں چارہ گروں نے ، مسیحاؤں نے ، رہبروں نے ہی لُوٹ لیا

اُن سارے نصیب کے ماروں کو اب شہر کیا ، ویرانہ کیا 


کبھی اُس بے وفا کی کہانی میں شہزادے بھی تھے ، غُلام بھی ہم 

جہاں کو ہے جو ازبر پھر سے ہی سُنائیں وُہ افسانہ کیا


شب و روز یہ مانگتا ہی رہتا ہے دلِ وحشی نشہ کیسا

اِک ایک ہی جام کو اب اِس کے اُٹھا لائیں میخانہ کیا


نہ تو یہ محفل وُہ محفل ہے ناظؔر نہ ہی یہ جہاں وُہ جہاں ہے

سبھی دیوانے ہیں اِک وحشت میں شمّع کیا پروانہ کیا 


(اظہر ناظؔر)  


#Azharnaazirurdupoetry



Comments

Popular posts from this blog