وصال یار ** معروف غزل ** سولہ شاعر** ایک زمین


16 شاعر اور ایک زمین
..........
1- مرزا اسد اللہ خان غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
..............
2- نواب مرزا داغ دہلوی
عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا
کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟
غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا
نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
......................
3- امیر مینائی
میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا
وہ سر مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا
ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا
مرے اتقا کا باعث تو ہے مری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا تو شراب خوار ہوتا
میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا
نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا ہو گلے کا ہار ہوتا
وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
مرے دونوں پہلوؤں میں دل بیقرار ہوتا
دمِ نزع بھی جو وہ بُت مجھے آکے منہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا
نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لحد فِشار دیتی
سر راہِ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا
جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا
میں زباں سے تم کو سچا کہوں لاکھ بار کہہ دوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا
مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا
...............
4- جگر مراد آبادی
یہ مزا تھا، خلد میں بھی نہ مجھے قرار ہوتا
جو وہاں بھی آنکھ کھُلتی، یہی انتظار ہوتا
میں جنونِ عشق میں یوں ہمہ تن فگار ہوتا
کہ مرے لہُو سے پیدا اثرِ بہار ہوتا
میرے رشکِ بے نہایت کو نہ پوچھ میرے دل سے
تجھے تجھ سے بھی چھُپاتا، اگر اختیار ہوتا
مری بےقراریاں ہی تو ہیں اس کی وجہ تسکیں
جو مجھے قرار ہوتا ، تو وہ بے قرار ہوتا
جسے چشمِ شوق میری کسی طرح دیکھ پاتی
کبھی حشر تک وہ جلوہ نہ پھر آشکار ہوتا
یہ دل اور یہ بیانِ غمِ عشق بے محابا
اگر آپ طرح دیتے، مجھے ناگوار ہوتا
کبھی یہ ملال، اس کا نہ دُکھے کسی طرح دل
کبھی یہ خیال، وہ بھی یونہی بےقرار ہوتا
مرا حال ہی جگر کیا، وہ مریضِ عشق ہوں میں
کہ وہ زہر بھی جو دیتا، مجھے سازگار ہوتا
---------------------------
5- اظہر ناظؔر
جو یہ ہجِر ہی کہیں تھمتا ، وِصالِ یار ہوتا
یہاں خُوش نصِیبوں میں اپنا بھی تو شُمار ہوتا
یہی مے کدے حُسن کے ہُوا کرتے جو جنّت جاں
میں بھی تو نِشاط ہوتا ، تُو بھی اِک خُمار ہوتا
لگا لیتے ہم بھی آخر کہیں اپنے پگلے دل کو
یہ جو ہوتا اپنا ، جو اس پہ کُچھ اِختیار ہوتا
 گُماں سے ہی جس کے ہو جاتا ہے اب دل اپنا پاگل 
خُوشی مار دیتی جو سامنے شاہکار ہوتا
ہمیں عُمروں کا وہ سنیاس بھی تو تھا پھر گوارا
ِترے وعدوں پے ستِمگر جو کہ اعتبار ہوتا
رکھّی شرطِ آزمائش تھی ، اگر قبول ہوتی
شب و روز عِید ہوتی ، سماں نو بہار ہوتا
ہمیں بعد مرنے کے  جاناں بھی یاد رکھتی دُنیا
اسی شہرِ عشق میں اپنا بھی تو مِزار ہوتا

-------------------------
6- یاسؔ یگانہ چنگیزی
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اختیار ہوتا
تو بھلا یہ راز الفت کبھی آشکار ہوتا
ہے تنک مزاج صیاد کچھ اپنا بس نہیں ہے
میں قفس کو لے کے اڑتا اگر اختیار ہوتا
یہ ذرا سی اک جھلک نے دل و جاں کو یوں جلایا
تری برق حسن سے پھر کوئی کیا دوچار ہوتا
اجی توبہ اس گریباں کی بھلا بساط کیا تھی
یہ کہو کہ ہاتھ الجھا نہیں تار تار ہوتا
وہ نہ آتے فاتحہ کو ذرا مڑ کے دیکھ لیتے
تو ہجوم یاسؔ اتنا نہ سر مزار ہوتا
------------------------------
7- عزیز لکھنوی
غمِ عشق اگر ملِا تھا تو کبھی قرار ہوتا
کوئی زور دل پہ ہوتا، کوئی اختیار ہوتا
وہ کہیں اگر سرہانے دمِ احتضار قرار ہوتا
تو یقین تھا کہ مرنا مِرا یادگار ہوتا
مِرے بعد جمع کرتے وہ خطوطِ شوق میرے
یہ صحیفۂ محبت کبھی یادگار ہوتا
وہ کسی کا اٹھ کے جانا وہ مِرا یہ رو کے کہنا
تمہیں کیوں میں جانے دیتا اگر اختیار ہوتا
وہ عزیزؔ سے یہ کہہ کر پسِ پردہ چھپ گئی ہیں
تم ادا شناس ہوتے، تو کچھ اعتبار ہوتا
----------------------------------
8- ماجد صدیقی
سفرِ حیات اپنا بڑا لطف دار ہوتا
کسی اِک بدن پہ، اِک سا، اگر اختیار ہوتا
نہ حکومتی سلیقے ہمیں آ سکے دگرنہ
یہ جو اب ہے ایسا ویسا، نہ کوئی دیار ہوتا
نہ کجی کوئی بھی ہوتی کسی فرد کے چلن میں
جسے راستی کہیں سب، وہ اگر شعار ہوتا
کبھی گھٹ کے ہم بھی بڑھتے تو بجا ہے یہ ہمیں بھی
کسی چودھویں کے چندا سا بہم نکھار ہوتا
نہ ہُوا کہ ہم بھی کرتے بڑی زرنگاریاں، گر
زرِ گُل سا پاس اپنے زرِ مستعار ہوتا
کبھی رہنما ہمارا نہ بنا یہ قولِ غالب
’اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا،
کوئی ہے کمی جو ماجد ہے ہمیں میں ورنہ اپنا
وہ جو ہیں جہاں میں اچّھے، اُنہی میں شمار ہوتا
-------------------------------
9- ادیب سہارنپوری
مِرے شوق جستجو کا کسے اعتبار ہوتا
سرِ راہ منزلوں تک نہ اگر غبار ہوتا
میں تجھے خدا سمجھ کر نہ گناہگار ہوتا
اگر ایک بے نیازی ہی تِرا شعار ہوتا 
جو ستم زدوں کا یا رب کوئ غمگسار ہوتا
تو غم حیات اتنا نہ دلوں پہ بار ہوتا
مِری زندگی میں شامل جو نہ تیرا پیار ہوتا
تو نشاطِ دو جہاں بھی مجھے ناگوار ہوتا
یہی مہر و ماہ و انجم کو گلہ ہے مجھ سے یا رب
کہ انہیں بھی چین ملتا، جو مجھے قرار ہوتا
نہ سکونِ دل کی چاہت میں تڑپ ادیبؔ اتنا
کسی اور کو تو ملتا جو کہیں قرار ہوتا

------------------------------------
10- --صفیؔ لکھنوی
کوئی زہر پی بھی لیتا تو وہ دل لگی سمجھتے
کوئی جان دے بھی دیتا تو نہ اعتبار ہوتا

کہیں روز حشر آتا کہ یہ سیر دیکھ لیتے
کوئی داد خواہ ہوتا کوئی شرمسار ہوتا

مری لاش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا
-------------------------------
11- آلوک یادو
مری قربتوں کی خاطر یوں ہی بے قرار ہوتا
جو مری طرح اسے بھی کہیں مجھ سے پیار ہوتا
نہ وہ اس طرح بدلتے نہ نگاہ پھیر لیتے
جو نہ بے بسی کا میری انہیں اعتبار ہوتا
وہ کچھ ایسے ڈھلتا مجھ میں کہ غم اس کے میرے ہوتے
وہ جو سوگوار ہوتا تو میں اشک بار ہوتا
مجھے چین لینے دیتی کہاں انقلابی فطرت
نہ مصاحبوں میں ہوتا نہ میں شہ کا یار ہوتا
میں اسی کے نام کرتا یہ حیات موت سب کچھ
مجھے زندگی پہ آلوکؔ اگر اختیار ہوتا
------------------------------------
12-منظورحسین شور
دم برق و باد ہوتا نفس شرار ہوتا
کسی رنگ سے تو جینا مجھے سازگار ہوتا
مجھے اس کی بے رخی کا بھی جو اعتبار ہوتا
میں دعا کو ہاتھ اٹھا کر نہ گناہ گار ہوتا
نہ بلا سے اشک تھمتے نہ دعا قبول ہوتی
میں خلوص بندگی سے تو نہ شرمسار ہوتا
وہ نقاب اٹھ بھی جاتا تو نظر کہاں سے لاتے
ترے روبرو بھی تیرا وہی انتظار ہوتا
غم دوستاں غنیمت ہے وطن سے دور ورنہ
مرے دل پہ کیا گزرتی جو مرا دیار ہوتا
مجھے شورؔ دے رہے ہیں وہ فریب تیز گامی
کہ جو دو قدم بھی چلتے تو نہ اعتبار ہوتا
------------------------------------
13- سید غلام معین الدین شاہ مشتاق
یہ کہاں تھی میری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
میری طرح کاش انہیں بھی میرا انتظار ہوتا
یہ ہے میرے دل کی حسرت یہ ہے میرے دل کا ارماں
ذرا مجھ سے ہوتی الفت ذرا مجھ سے پیار ہوتا
اسی انتظار میں ہوں کسی دن وہ دن بھی ہوگا
تجھے آرزو یہ ہوگی کہ میں ہم کنار ہوتا
تیرا دل کہیں نہ لگتا تجھے چین کیونکر آتا
تو اداس اداس رہتا جو تو بے قرار ہوتا
تیری بات مان لیتا کبھی تجھ سے کچھ نہ کہتا
میرے بے قرار دل کو جو ذرا قرار ہوتا
یہی میری بے کلی پھر میری بے کلی نہ ہوتی
جو تو دل نواز ہوتا جو تو غمگسار ہوتا
کبھی اپنی آنکھ سے وہ میرا حال دیکھ لیتے
مجھے ہے یقین ان کا یہی حالِ زار ہوتا
کبھی ان سے جا لپٹتا کبھی ان کے پاوں پڑتا
سر رہگزر پہ ان کی جو مرا غبار ہوتا
تری مہربانیوں سے مرے کام بن رہے ہیں
جو تو مہرباں نہ ہوتا میں ذلیل و خوار ہوتا
یہ ہے آپ کی نوازش کہ ادھر ہے آپ کا رخ
نہ تھی مجھ میں‌کوئی خوبی جو امیدوار ہوتا
تری رحمتوں کی وسعت سرِ حشر دیکھتے ہی
یہ پکار اٹھا ہے زاہد میں‌گناہ گار ہوتا
بخدا کس اوج پر پھر یہ ادا نماز ہوتی
ترے پائے ناز پر جب سرِ خاکسار ہوتا
جو معین میرا ان سے کسی دن ملاپ ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا
-------------------------------------
14- شاہین فصیحؔ ربانی
تجھے اپنے جذبِ دل پر اگر اعتبار ہوتا
کوئی قافلہ یقیناً پسِ ہر غبار ہوتا
تری چاہتوں پہ مجھ کو جو نہ اعتبار ہوتا
ترے نام پر مرا دل یوں نہ بے قرار ہوتا
سرِ شام مجھ سے ملنا جو ترا شعار ہوتا
سرِ شام ہی سے مجھ کو ترا انتظار ہوتا
تری یاد او ستمگر! نہ اڑاتی میری نیندیں
مرے خواب کا تسلسل مرا اعتبار ہوتا
میں جہاں قیام کر لوں اسے روک لوں وہاں پر
مرے دل پہ کاش اتنا مجھے اختیار ہوتا
یہ جدائیوں کے لمحے یوں وبالِ جاں نہ ہوتے
مری بات مان لیتے تو نہ دل پہ بار ہوتا
مرے دل میں چاہتوں کے شب و روز پھول کھلتے
جو درونِ دل لہو کا کوئی آبشار ہوتا
تری بے رخی نے آخر مرا دل کیا مخالف
تو ستم اگر نہ ڈھاتا ترا جانثار ہوتا
میں فصیحؔ سوچتا ہوں، یہ حیات کیسے کٹتی
اگر ارد گرد ہر سو کوئی ریگزار ہوتا
-------------------------------------
15- ظفر ترمذی
کوئی وعدہٴ محبت اگر استوار ہوتا
یہی دل کے درد دل سے گل نوبہار ہوتا
یہ بہار زا ہوائیں یہ طرب فزا گھٹائیں
لب جوئبار ہوتا تیرا انتظار ہوتا
کسی پر فضا چمن میں کہیں آشیاں بناتے
جو کبھی قرار حاصل دل بے قرار ہوتا
میرے وحشتوں میں حائل کوئ مصلحت ہے ورنہ
یہ نظر جہاں ٹھہرتی وہیں شعلہ زار ہوتا
میرا سوز عشق کھلتا ظفر اہل معرفت پر
اگر ایک اور جلوہ سے کوہسار ہوتا
----------------------------------
16-ڈاکٹر سہیل ملک
جو سرابِ زندگی پر ہمیں اعتبار ہوتا
یہ ترنمِ بہاراں کہاں ناگوار ہوتا
نہ فغاں پہ بار ہوتا سوئے کارزار ہوتا
دلِ زار گر نہ ہوتا دلِ بیقرار ہوتا
مجھے کم نوائی لاحق تجھے زعمِ بے نیازی
کبھی موسمِ تکلّم یہاں سازگار ہوتا
مری کم نگاہی مجھ کو یہ فریب دے گئی ہے
جو نگاہ تیز رکھتا تو کہاں شکار ہوتا
نہ برابری کی باتیں نہ ہی عدل کے فسانے
جو نہ امتیاز ہوتا تو کوئی نہ خوار ہوتا
میں کہاں قبول کرتا یہ طریقِ بادشاہی
جو نظامِ آشیاں پر مرا اختیار ہوتا
بڑا شور اُٹھ رہا ہے مری بے کلی پہ دیکھو
مری نامرادیوں کا بھی کوئی شمار ہوتا
تجھے دیکھتا ہی رہتا پسِ روزنِ کفن بھی
تری دید پر ستمگر اگر اختیار ہوتا
----------------------------------
17- اِبنِ مُنیب
نہ تڑپ ہی دل میں ہوتی نہ ہی انتظار ہوتا
جو بہشت میں ہی ہوتے تو کہاں قرار ہوتا
یہ بدن جو خاک و خوں ہے یہ اگر غبار ہوتا
تیری خاکِ پا میں شامل تیرا خاکسار ہوتا
کہیں راہبر نے لُوٹا، کہیں راہزن نے تھاما
جو سفر نہ یوں گزرتا تو نہ یادگار ہوتا
رہے بیخودی سلامت، رہے میکشی سلامت
تجھے ہم بھُلا نہ پاتے اگر اختیار ہوتا
یہ نصیب کی ہیں باتیں کہ چلے ہیں سوئے مقتل
جو قلم جھکا کے لکھتے تو گلے میں ہار ہوتا
---------------------------------------
#AikZameen
#Wisal_e_Yaar_Ghazals_UrduPoetry
#Parizaad2023
#Parastish2023
#Rakhtesafar2023
#Azharnaazirurdupoetry

Comments

Popular posts from this blog