یار ہی یار مار ہے سائیں ** غزل ** اظہر ناظؔر

یار ہی یار مار ہے سائیں
یاری بھی داغدار ہے سائیں

سہہ جو لیتے قبائے ہستی کو 
درد  کا کیسا بار ہے سائیں

کیا ہے رنجش، گلے سے آ کے لگو
پل کا کیا اعتبار ہے سائیں

خود سے انسان کو حقیر نہ جان
ورنہ رب کی ہی مار ہے سائیں

سیدھا رستہ نہ چھوڑ ، دِل کی سُن
رب کی تیرے  پُکار ہے سائیں

رکھ سفر میں بھی قافلے پہ نظر
 کِس کا  کیا اعتبار ہے سائیں

لڑکھڑا کے گِرے جِدھر درویش
تیرا میرا ، شُمار ہے سائیں؟

رہ گیا ہے بشر بھی گھڑتا جواز
مرتا بے اِختیار ہے سائیں

؀اظہر ناظؔر

#Parizaad2023
#Rakhtesafar2023
#Parastish2023
#Azharnaazirurdupoetry

Comments

Popular posts from this blog