فون کال ** نظم ** اظہر ناظؔر



ہوا کے دوش پہ اُس دِن جب پہلی بار

فون پہ تیری بہتے جھرنوں سی آواز

میری سماعتوں میں رس گھول گئی تھی

تیرے لہجے میں تب بلا کی ہی شوخی تھی

جسے اُس لمحے کوئی شرارت جان کر

تجھے کوئی انجان ، اجنبی مان کر

میں نے پھر ریسیور ہی رکھ دیا تھا

تُمہیں دوبارہ کال سے منع بھی تو کیا تھا

پھر دِن میں کئی کئی بار لگاتار

مُجھ کو تیرے نمبر سے فون آتا رہا

تا وقتیکہ مُجھے پہلی بار یوں لگا

کہ یہ محض تُمہاری شرارت نہیں تھی

پھر یُونہی باتوں کا انبار لگا تھا

بِن بات کئے رہنا دُشوار  لگا تھا

ہاں بس اِتنا یاد ہے میرا یہ پُوچھنا

کون ہو تُم آخر کس دیس سے آئ ہو

کیُوں تتلی سی تُم یُوں اُڑتی پھِرتی ہو

پھر ہفتوں ہی بِن ملے و بِنا دیکھے ہی 

ہوا کے دوش پہ فون کے اُس پار

ہمارے بیچ عہد و پیماں ہوتے رہے

ہم تُم اپنی اپنی رو میں بہتے گۓ 

یُوں لگا برسوں کی ہی شناسائی تھی

درمیاں حائل جنموں کی سی جُدائی تھی

پھر جب پہلی بار ہم سرِ شام ملے تھے

اور میں دم بخُود سا تُم کو دیکھے گیا تھا

اُسی پل یہ حقیقت آشکار ہوئی تھی

تُم حیرت انگیز حد تک ویسی ہی تھیں

جیسی دل کے آئینے میں مُجھے دِکھی تھیں

فون کی آدھی مُلاقات بھی پُوری تھی

یہ دلِ کرشمہ ساز جو سینے میں دھڑکتا ہے

ہوا کے دوش پہ ، فون کے اُس پار ، دُور سے ہی

سچ ہے کہ سب سُن لیتا ہے ، دیکھ بھی لیتا ہے


؀اظہر ناظؔر


#RakhteSafar2024

#Azharnaazirurdupoetry


Comments

Popular posts from this blog