اگر انساں باغ جنت سے جنت بدر نہ ہوتا ** غزل ** اظہر ناظؔر

اگر اِنساں باغِ جنّت سے جنّت بدر نہ ہوتا
یُوں زمِیں پہ آج اُس کا بھی فنا سا گھر نہ ہوتا
جو مِلا نہ ہوتا یہ آدمی شیطاں سے کبھی بھی
تو بدی کی راہ  پے چلتے یُوں ہی نڈر نہ ہوتا
یہی جو روش نہ ہوتی جہاں میں بھی خیر و شر کی
تو بشر  کو اچھا بُرا کوئی بھی ثمر نہ ہوتا
دِیے کو نہ ہوتی جو روشنی سے ذرا بھی رغبت
پھر اندھیروں کے مُقابل کھڑا یہ شرر نہ ہوتا
مِری عُمر کا پہیّہ اِسی جا ہی گھُوما ہوتا
یُوں اگر مُجھے بھی واجِب تِرا ہی سفر نہ ہوتا
تھکا ہارا میں بھی بھاری قدموں سے لوٹا ہوتا
مِرے قدموں کے مُقابِل تِرا ہی جو در نہ ہوتا
یہ شدِید سنگ باری مِرے ہاں کہاں سے ہوتی
مِرے صحن میں یہ پھل دار سا اگر شجر نہ ہوتا
تِرے بے محل چراغاں نے ہے پھُونک ڈالا سب کُچھ
نہیں تو یُوں بھی جلا چارہ گراں نگر نہ ہوتا
بڑے برسوں پہلے میں لِکھنا ہی چھوڑ جاتا ناظر
مِرے بھی کلام میں جو ذرا سا اثر نہ ہوتا 

؀اظہر ناظؔر

#Parizaad2023
#Rakhtesafar2023
#Parastish2023
#Azharnaazirurdupoetry

Comments

Popular posts from this blog