پیار میں کھیلی بازی سے ڈر لگتا ہے ** غزل ** اظہر ناظؔر


پیار میں کھیلی بازی سے ڈر لگتا ہے
مات ہو تو ہو سُبکی سے ڈر لگتا ہے

بات کرتے ہُوئے اب ٹھہر جاتا ہُوں
اپنے لہجے کی تلخی سے ڈر لگتا ہے 

یُوں کبھی اپنوں نے تھا ڈبویا مُجھے
آج بھی یارو کشتی سے ڈر لگتا ہے 

پھُولوں نے ڈھائی ہے وُہ قیامت کہ آج
دِل کے چھالوں کو تتلی سے ڈر لگتا ہے

خُوبیاں ہی یہ بن جائیں جب خامیاں 
اپنی ہر ایک خُوبی سے ڈر لگتا ہے

بیچ بازار میں نقلی اسقدر ہے
سامنے کی شے اصلی سے ڈر لگتا ہے

کر بھلا ہو بھلا لگتا ہے اِک فریب
نام کی اب تو نیکی سے ڈر لگتا ہے

اِن جھروکوں سے اب جھانکتا کون ہے ؟
اِن دریچوں سے ، کھڑکی سے ڈر لگتا ہے

مُڑ کے جو دیکھتا ہُوں کھو سا جاتا ہُوں
مُجھ کو اپنے ہی ماضی سے ڈر لگتا ہے

یار کی بھی نہ میں ہے سہُولت بڑی
ہم ہیں ناظؔر کہ مرضی سے ڈر لگتا ہے

؀اظہر ناظؔر

#Parizaad2023
#Rakhtesafar2023
#Parastish2023
#Azharnaazirurdupoetry


Comments

Popular posts from this blog