مُسافر ** نظم ** اظہر ناظؔر

اُس کو بھی رہتا دُنیا سے گِلہ سا تھا
دہر میں میں بھی رہتا کُچھ خفا سا تھا
وہ بھی تو  دِل کے صحرا میں ہی بھٹکی تھی
میں بھی اک دورا ہے پے  تب کھڑا سا تھا
اُس کے پاؤں بھی مُجھ سے ہی تو بوجھل تھے
میں بھی اُنہی دِنوں میں کُچھ بُجھا سا تھا
تب اُسے بھی سہارے کی تمنّا تھی
میں بھی اُس پل میں کُچھ بے آسرا سا تھا
اُس کو بھی تو مُحبّت میں ہُوئی تھی مات
مُجھ کو بھی لگتا عالم بے وفا سا تھا
کیسا تھا اپنا یہ رشتہ نہیں معلوم
تھا مگر کُچھ تو ایسا جو مِرا سا تھا
اُس کا ملنا بھی تھا غیبی مدد مُجھ کو
دِل مِرا بھی جُدائ سے بھرا سا تھا
منزلیں دُور تھیں دو پل تھا سستانا
پھِر یہ دل بھی تو کُچھ اب چاہتا سا تھا
گو یُوں دو پل میں طے رستہ نہیں ہوتا
دو قدم اُس کے میں رستے چلا سا تھا
پھِر وہ بھی جانے کب اُٹھ کر  ہی چل دی تھی
میں بھی  تو اپنے رستے پھر  گیا سا تھا

؀اظہر ناظؔر

#Parizaad2023
#Rakhtesafar2023
#Parastish2023
#Azharnaazirurdupoetry

Comments

Popular posts from this blog