جو یہ ہجر ہی کہیں تھمتا وصال یار ہوتا ** غزل ** اظہر ناظؔر

جو یہ ہجِر ہی کہیں تھمتا ، وِصالِ یار ہوتا
یہاں خُوش نصِیبوں میں اپنا بھی تو شُمار ہوتا
یہی مے کدے حُسن کے ہُوا کرتے جو جنّت جاں
میں بھی تو نِشاط ہوتا ، تُو بھی اِک خُمار ہوتا
لگا لیتے ہم بھی آخر کہیں اپنے پگلے دل کو
یہ جو ہوتا اپنا ، جو اس پہ کُچھ اِختیار ہوتا
 گُماں سے ہی جس کے ہو جاتا ہے اب دل اپنا پاگل 
خُوشی مار دیتی جو سامنے شاہکار ہوتا
ہمیں عُمروں کا وہ سنیاس بھی تو تھا پھر گوارا
ِترے وعدوں پے ستِمگر جو کہ اعتبار ہوتا
رکھّی شرطِ آزمائش تھی ، اگر قبول ہوتی
شب و روز عِید ہوتی ، سماں نو بہار ہوتا
ہمیں بعد مرنے کے  جاناں بھی یاد رکھتی دُنیا
اسی شہرِ عشق میں اپنا بھی تو مِزار ہوتا

؀اظہر ناظؔر

#Parizaad2023
#Rakhtesafar2023
#Parastish2023
#Azharnaazirurdupoetry


Comments

Popular posts from this blog