تیرا بدن تراشنے کو بُت نظر میں ہے ** غزل ** اظہر ناظؔر

آوارہ یہ پھِراتا نگر نگر میں ہے

دل ہے کہ چل رہا اِسی تو اب ڈگر میں ہے

مُجھ سا کہاں ملے گا کہ جھونکا ہوا کا ہُوں

تیرا بدن تراشنے کو بُت نظر میں ہے

کیسے یہ مان لُوں کوئی اُس سا طبیب ہے

 جو بات میرے مان لو اب چارہ گر میں ہے

وُہ  گہما گہمی ہے وہی رونق جہاں کی ہے

زیست ایک گھر سے دوسرے کے ہی سفر میں ہے

ہے ایک دُنیا جس کے ہی پیچھے ہوئی فِدا

کوئی تو بات تیرے بھی اِس مُعتبر میں ہے

دیں ناخُدا کو دوش کہ طوفانوں کو ہی ہم

اپنے جبھی سفینے کو دیکھو بھنور میں ہے

سچ ہے سبھی حسینوں میں کُچھ تو ہے خاص پر

کب ہے کسی میں میرے جو رشکِ قمر میں ہے

مٹّی میں کب ہے  بات جو کُوزہ گری میں ہے

کوئی تو اب کرشمہ ترے بھی ہُنر میں ہے

ہے دل کو پھُونک ڈالا جو اِس عشق نے تو کیا

دل میں ہے جتنی آگ ہی میرے جگر میں ہے

جب ہی فرشتوں  سے کہا آدم کو سجدے کا

رب نے رکھّا ذرا تو انوکھا بشر میں ہے


؀اظہر ناظؔر


#RakhteSafar2024

#Azharnaazirurdupoetry


Comments

Popular posts from this blog