پیاسی ہی رُوح تک رہی نہ جسم کی تشنگی گئی ** غزل ** اظہر ناظؔر

پیاسی ہی رُوح  تک رہی نہ جسم کی تشنگی گئی 
چلتے چلے گئے جدھر لے کے یہ زندگی گئی

ھمی تو تھے وُہ چراغ جو تنہا سفر پہ نکلے تھے 
جلتے چلے گئے جدھر لے کے یہ روشنی گئی

پھر کبھی چلمنوں کے پیچھے کبھی خواب گاہوں میں
بہکے چلے گئے جدھر لے کے یہ دلکشی گئی

کیسی ہی رونقیں تھیں اِس دل میں کبھی تو رات دن 
بستا رہا یہ جب تلک نہ اِس سے یہ عاشقی گئی

دوستوں کو تھے پھُول ہم دُشمنوں کو تھے خار ہی
ہم بھی گئے جدھر لے کے اپنی یہ دوستی گئی

پھُول کھلا رہا چمن میں بقا اور فنا سے دُور
مہکا چلا گیا وُہ جب تک نہ یہ تازگی گئی

لفظ معانی کو ترسنے لگے معنی لفظوں کو
شاعری بن گئی ہے کھلواڑ ، جو شاعری گئی

کیسے ہی تو یہاں سہے ہم نے ستم پے تھے ستم
آنکھوں سے اپنی جب تلک نہ بے بسی ، بے کسی گئی

؀اظہر ناظؔر

#Parizaad2023
#Rakhtesafar2023
#Parastish2023
#Azharnaazirurdupoetry

Comments

Popular posts from this blog